وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پھیلنے کے پیش نظر معاشی سرگرمیوں میں آنے والے تعطل اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مختلف شعبہ جات کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کردیا۔
وزیر اعظم نے سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ خطرہ آج ہمیں کورونا سے نہیں بلکہ کورونا سے خوف میں آ کے غلط فیصلے کرنے سے ہے کیونکہ ہم بھی جو بھی فیصلہ کرتے ہیں اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے ملک کے حالات دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم جو فیصلہ کریں گے کہیں اس کے اثرات معاشرے میں کورونا سے زیادہ تباہی تو نہیں مچا دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے نیشنل سیکیورٹی کا اجلاس کیا تھا اور اس وقت محض کورونا کے 21 کیس تھے، لاک ڈاؤن تو اسی دن سے شروع ہو گیا تھا، اسکول، کالج بند کر دیے گئے اور لوگوں کے غیر ضروری اجتماع پر پابندی لگا دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی آخری قسم کرفیو ہے، کرفیو لگانے کے جو ہمارے معاشرے پر اثرات پڑیں گے ہم اس کو سوچ بھی نہیں سکتے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے فیصلے ایک چھوٹی سی ایلیٹ طبقے کو دیکھ کر لیے جاتے ہیں، ہمارے تعلیمی اور عدالتی نظام کا بھی یہی حال ہے، کورونا وائرس کے پیش نظر بھی لاک ڈاؤن کو لے کر عمومی سوچ یہی ہے لیکن مکمل کرفیو لگانے سے نقصان امیر کو نہیں بلکہ کچی بستیوں میں رہنے والے غریبوں کو ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے غریبوں کے بارے میں سوچنا ہے کہ وہ ان حالات میں کہاں سے اپنے گھر کا چولہا جلائیں گے، اگر ہمارے معاشی حالات اٹلی اور چین جیسے ہوتے تو کرفیو لگانا آسان ہوتا۔
عمران خان نے کہا کہ اگر ہم کرفیو لگاتے ہیں تو کیا ہم نے سوچا ہے کہ ہسپتال کام کیسے کریں گے، اس میں سپلائی کیسے آئے گی، اسٹاف کیسے کام کرے گا، ڈاکٹر اور نرس کے علاوہ پورا اسٹاف ہے جس کے بارے میں سوچنا ہے۔
انہوں نے ریلیف پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مزدور طبقے کے لیے 200ارب روپے مختص کیے ہیں اور اس علاوہ ہم صوبوں سے مشاورت کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر بے روزگار ہونے والے مزدوروں کے لیے کاروباری برادری سے بھی بات کر رہے ہیں کہ وہ صنعت بند ہونے کی صورت میں انہیں نوکریوں سے فارغ نہ کریں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس وقت ایکسپورٹ اور انڈسٹری سب سے زیادہ متاثر ہے اور ان کے لیے ہم نے دو فیصلے کیے ہیں جس کے تحت انہیں فوری طور پر 100ارب کے ٹیکس ری فنڈ کر دیے جائیں گے تاکہ ان کے پاس فوری طور پر رقم میسر ہو تاکہ یہ اپنے مزدوروں پر بھی خرچ کر سکیں۔
انہوں نے نے کہا کہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعت کے لیے ساتھ ساتھ زراعت کے لیے 100ارب روپے رکھے ہیں اور ان کے قرض پر سود کی ادائیگی موخر کرا دیںگے جبکہ ان کو رعایتی قرض بھی دیا جائے گا اور اس کے علاوہ کسانوں کے ان پٹ بڑھانے کے لیے ہم نے اس میں پیسا رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب سے زیادہ مشکل حالات میں زندگی گزارنے والے خاندانوں کے لیے 4مہینے کے لیے 150ارب روپے رکھ رہے ہیں جس کے تحت ان خاندانوں کو 3ہزار روپے ماہوار دیے جائیں گے اور ہماری کوشش ہو گی کہ اس میں صوبے بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تاکہ ہم ان کی مزید مدد کر سکیں۔
عمران خان نے کہا کہ ہم پناہ گاہوں میں توسیع کریں گے کیونکہ جو موجودہ پناہ گاہوں میں بہت رش ہے اور ہم بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ ان کی مکمل چیکنگ کر کے دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں بیروزگاری کو دیکھتے ہوئے پناہ گاہوں میں توسیع کریں گے تاکہ لوگ وہاں آ کر کھانا کھا سکیں اور رہ سکیں لیکن اس بات خیال رکھا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس سے ان کی مکمل چیکنگ کے بعد اندر آنے دیا جائے۔
وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے بھی 50ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا تاکہ یوٹیلٹی اسٹور میں مستقل چیزیں رہیں اور عام آدمی اس سے کھانے پینے کی چیزیں خرید سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گندم کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے 280ارب روپے رکھے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے کسانوں کے ہاتھ میں پیسہ آئے گا اور کم از کم ہمارے دیہاتی علاقوں میں حالات بہتر رہیں گے۔
عمران خان نے پیٹرول، ڈیزل، لائٹ ڈیزل، کیروسین کی قیمتوں میں بھی 15روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے حکومت پر 75ارب روپے کا اثر پڑے گا۔
وزیر اعظم نے بجلی اور گیس کے بلوں کے صارفین کے لیے بھی ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے 75فیصد صارفین کا 300یونٹ کا بل آتا ہے اور ان کے لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تین مہینے کی قسطوں میں بل دے سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح اسی طرح 81فیصد گیس کے صارفین جن کا بل 2ہزار روپے مہینہ سے کم آتا ہے، ان کو بھی تین مہینے کی قسطوں میں بل ادا کرنے کی سہولت میسر ہو گی۔
عمران خان نے 50ارب روپے میڈیکل ورکرز کے لیے مختص کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے لیے آلات لینے کے لیے ان کو طبی سہولیات کی فراہمی میں بھی مدد کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کھانے پینے چیزیں مثلاً دال چاول، گھی وغیرہ پر ٹیکسز وہ ختم کر دیے ہیں یا انتہائی کم دیے ہیں تاکہ ان کی قیمت نیچے آئے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے الگ سے 100ارب روپے مختص کیے ہیں تاکہ اس لاک ڈاؤن کے دوران ایمرجنسی کی صورت میں اس کو استعمال کیا جا سکے۔
انہوں نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے لیے بھی 25ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا جس کس مقصد کٹس لینے سمیت دیگر طبی سازوسامان خریدنا ہے۔
وزیر اعظم نے تعمیرات کی صنعت کے لیے خسوصی پیکج کے اعلان کی نوید سناتے ہوئے کہا کہ ہم تعمیرات کی صنعت کے لیے آئندہ 3-4 دن میں ایک پیکج کا اعلان کر رہے ہیں اور یہ ایسا پیکج ہو گا جس کا پاکستان کی تاریخ میں آج تک اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ اس صنعت سے ہمارے ہاں بیروزگاری کے کاتمے میں بھی مدد ملے گی اور دییگر صنعتوں کو بھی فائدہ ہو گا۔