کرونا وائرس کے پھیلاؤ نے لوگوں سے ان کا روزگار چھیننا شروع کر دیا ہے۔ 1982 کے بعد امریکہ میں پہلی بار بے روزگاروں کی تعداد 33 لاکھ کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ کرونا وائرس کے باعث کاروباروں کی بندش ہے۔
اس ہفتے امریکہ میں بے روزگاری الاؤنس کے لیے 32 لاکھ 28 ہزار 300 لوگوں نے لیبر ڈپارٹمنٹ میں اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔ بے روزگار ہونے والے درخواست گذار افراد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں پانچ گنا بڑھ چکی ہے جب کہ اس میں تیزی سے اضافہ متوقع ہے۔
یہ بھی ضرور پڑھیں: کیا آپ کورونا وائرس کی عام علامات سے واقف ہیں؟
کرونا وائرس جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ اس تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ کیونکہ امریکہ بھر میں ریستوران، ہوٹل، سینما گھر اور ایئر لایئنز بند ہیں اور ان شعبوں میں کام کرنے والے لاکھوں کارکن اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ کئی کمپنیوں نے اپنے جزوقتی ملازموں کو نکال دیا ہے اور بہت سے کل وقتی ملازمین بھی چھانٹی کی زد میں آ گئے ہیں۔
یہ بھی ضرور پڑھیں: امریکہ کرونا وائرس کا نیا مرکز بن گیا، متاثرین کی تعداد 85,505 ہو گئی
بعض ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ بے روزگاری کی شرح 13 فی صد سے اوپر جا سکتی ہے، جو 2009 کی کساد بازاری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو گی۔ اس دور میں یہ سطح 10 فی صد تھی۔
آکسفورڈ اکانومسٹ کی ایک ماہر سینیٹی ہورٹن کا کہنا ہے کہ دو ہفتے قبل جو ناممکن دکھائی دیتا تھا اب ایک حقیقت بن چکا ہے۔
یہ بھی ضرور پڑھیں: امریکا میں کورونا کا بحران شدت اختیار کرگیا
فروری کے دوران امریکہ میں بے روزگاری کی شرح صرف ساڑھے تین فی صد تھی جو گزشتہ 50 برس کے دوران بے روزگاری کی کم ترین سطح تھی اور معیشت مسلسل ترقی کر رہی تھی۔
اقتصادی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اپریل تا جون کی سہ ماہی میں ملک میں بے روزگاری کی سطح 30 فی صد سے بھی اوپر جا سکتی ہے۔
وفاقی حکومت کے نئے امدادی پیکیج کی کانگریس سے منظوری کے بعد بے روزگار افراد کو اضافی امداد کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں ڈھائی کروڑ افراد کو اپنے روزگار سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔
0 Comments